۲۱ تیر، ۱۳۸۹

اٹھارويں ترميم پارليمنٹ اور عد ليہ

 آئين کي جو حالت ڈکٹيٹروں نے بنا دی تھی اور آئين کو چوں چوں کا مربہ بنا ديا تھا اس کو ٹھيک کرنے ميں تقريباً آٹھ ماہ سے زائد عرصہ لگا جس ميں 101 تراميم پر شق وار غور و خوص کے بعد اٹھارويں ترميم کی شکل ميں پارليمنٹ ميں پيش کيا گيا جس کو پارليمنٹ نے اتفاقِ رائے سے منظور کر ليا اور اب صدر ممليکت کے دستخط کے بعد آئين پاکستان کا حصہ ہے اب وہ عناصر جوايسا آئين چاہتے ہيں جس ميں جب چاہيں اپنی مرضی کا مطلب نکاليں آئين بھی رہے اور ڈکٹيٹر بھی رہے اور ان کے مفادات بھی پورے ہوں طرح طرح کی بولياں بول رہے ہيں اور ايسی بدگمانياں پيدا کر رہے ہيں جيسے آئين سے کوئی مقدس اور متعبرک باتيں نکال کر نعجس اور ناپاک باتيں شامل کردی ہيں پہلے ميڈيا پر شور مچايا يہاں پر جب مدلل اور بھر پور جواب ملا تو ہزارہ کا رخ کيا وہاں بھی تيزی سے انکے غبارے ميں سے ہوا نکل گئی اب ان عناصر کا پڑاؤ عدليہ ميں ہے يہاں پر يہ اپنا پورا زور لگائيں گے اب عدليہ ان کا سہارہ بنتی ہے يا نہيں اگر عدليہ نے ان عناصر کو سہارہ ديا اور پارليمنٹ کے بنائے ہوئے آئين ميں کوئی تبديلی کی يا کسی شق کو منسوخ کيا تو يہ ايسا سوراخ ہوگا جو ڈکٹيٹروں کو آنے کا راستہ دے گا جو آذاد عدليہ کے کيئے بھی باعثِ نقصان ہو گا جيسا کہ ماضی ميں ہوتا رہا ہے ڈکٹيٹر نے پريشر ڈال کر عدليہ کے ذريعے آئين ميں تبديلی کروانے کا اختيار حاصل کيا کئی شقوں کو منسوخ کروانے کی سند لی اگر عدليہ نے آئين ميں تبديلی ، منسوخی يا کسی لفظ کے معنی اور مفہوم بدلنے کا اختيار اپنے ہاتھ ميں ليا تو يہ ڈکٹيٹر کے بچنے کا ذريعہ بنے گا۔پھر ڈکٹيٹر آئے گا پی سی او نافذ ہوگا جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائيں گے جو نہيں اٹھائے گا وہ گھر جائے گا ڈکٹيٹر سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے باوجود اگر کبھی انکار کيا تو گريباں اور بالوں سے پکڑ کر گاڑی ميں ڈال ديا جائے گا پارليمنٹ ہی آئين کی خالق ہے اور يہ اسی کا اختيار ہے کہ آئين بنائے ترميم کرے يا کسی شق کو معطل کرے کسی دوسرے کو يہ حق نہيں کے وہ پارليمنٹ کا اختيار استعمال کرے اگر کوئی ايسا کرے گا تو يہ خلاف آئين اور تصادم کا راستہ ہوگا جس کا نقصان سب کو اٹھانا پڑے گا اس وقت جمہوريت نوزائدہ ہے اسکو طاقت اور حوسلہ بڑھانا سب کی زمے داری ہے ۔ اپنی مفاہمت ، مصالحت کی پاليسی کی وجہ سے سياسی جماعتيں پارليمنٹ کے لئے نہيں لڑيں گيں تو ان کی وہ ہی حالت ہوگی جو ماضی ميں ہوئی تھيں ۔جلاوطنی يہ اب نہيں ہونا چاہيے کہ آئين بھی ڈکٹيٹر بھی ايک ساتھ ۔ پارليمنٹ نہيں تو آئين نہيں ۔آئين ہے تو ڈکٹيٹر نہيں ۔آئين ہے تو سسٹم ہے سسٹم مظبوط ہے تو استحکام ہے استحکام ہے تو ترقی ہے ترقی ہوگی تو مسائل حل ہونگے مسائل حل ہونگے تو عام آدمی کا فائدہ ہوگا اور جب عام آدمی کا فائدہ ہوگا تو ان عناصر کا نقصان ہوگا جو صرف اور صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہيں اور جن کے مفادات عدم استحکام اور ڈکٹيٹروں سے وابستہ ہيں۔

۸ نظر:

  1. ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے آپ کا تعاون درکار ہے

    پاسخحذف
  2. نغمہ سحر صاحبہ آپ کا بلاگ پڑھا اور بڑی مشکل سے پڑھا۔ اس پر تبصرہ پھر کبھی مگر اس کے کچھ فونٹ وغیرہ تبدیل کریں تاکہ بندہ صحیح سے پڑھ تو سکے۔ میں اس سلسلے میں مدد کر سکتا ہوں۔

    پاسخحذف
  3. Saiset ha he buree chez plz avide pakistan pahely he barey saiset dan ha nagma g

    پاسخحذف
  4. وقاراعظم . میں آپ کی گائیڈ لائن کی منتظر ہوں

    پاسخحذف
  5. ابھی يہ مسلہ سپريم کورٹ ميں چل رہا ہے ديکھے آپ کے خيالات سے سپريم کورٹ اتفاق کر تا ہے کہ نہيں

    پاسخحذف
  6. اکبر بھائی ہم سب جانتے ہيں سپريم کورٹ ميں آٹھويں ترميم سے ليکر سترويں ترميم تک کيا ہوا ہماری عدليہ کا پيمانہ زرا مختلف ہوتا ہے ـ 58ـ2 بی کی تلوار سے کتنی بار پارليمنٹ کا قتل ہوا مگر ہماری اس عدالت اعظمعہ کا انصاف کہ کسی کو شہيد بنا کر قتل کو ناجائز قرار ديا اور کسی کو مجرم ٹھراکر قتل کو جائز قرار دياـ

    پاسخحذف
  7. نغمہ سحر جی
    آپ کا بلاگ پڑھا اس مضوع پر پہلے ہی اتنا کچھ پڑنے کو ملا کہ اب دل اکتا
    سا گیا ہے پلیز پلیز کوئی نیا موضوع
    پر طباع آزمائی فرمایۓ مہربانی ہو گی

    پاسخحذف

آپ کو حق حاصل ہے جس طرح کے چاہیں تبصرے کریں تو مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ جو تبصرے اخلاقیات کے معیار کے مطابق نہ ہوں انھیں میں رد کردوں۔