۲۴ تیر، ۱۳۸۹

( ج )


آج کل پنجاب اسمبلی کی اس قرارداد کا بڑا شور ہے جس میں ارکان اسمبلی نے میڈیا کے ان عناصر کی مذمت کی جو تمام اخلاقیات کو بالاطاق رکھ کر اور صحافیانہ اصولوں کو چھوڑ کر ایسی خبریں ، ٹاک شو اور کلپ چینل پر چلا رہے ہیں جن سے کسی کی عزت محفوظ نہیں جب چاہیں جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں اور جب عوامی نمائدے اپنے فطری ردعمل ،اپنے جمہوری حق اور اپنی ناپسنددیدگی کا اظہار کرنے کیلئے اپنے جائز فورم کو استعمال کریں تو ایسےایسے فتوے جاری ہونے شروع ہو گۓ کے جیسے عوام کے منتخب نمائندوں سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہو گیا جو ناقابل معافی ہے.
آج کے منتخب نمائندے جنھیں عوام نے اپنی محرومیوں اور ںاانصافیوں کے خاتمے کیلئے لڑنے اور آواز اٹھانے کیلئے ایوانوں میں بھیجا تھا وہ آج کس طرح غیر منتخب لوگوں سے اپنی رسوائی کروارہے ہیں اورانہیں اف کرنے کی بھی اجازت نہیں یہ ہے آج کی جمہوریت جہاں جمہوری حکومت اور منتخب نمائندے کمزور اور غیر منتخب طاقتور .
جہاں تک میں سمجھی ہوں کہ ایک بیچاری ' ج ' کئی جیموں میں پھس گئی ہے ہر کوئی اسے اپنی مرضی کے لباس میں اپنی دلہن بنانا چارہا ہے ایک دعوے دار تو وہ 'ج ' ہیں جنہونے اس بیچاری 'ج ' کی آبروریزی کرنے والے 'ج ' کو اسکے ناجائز اقدام کونہ صرف جائز قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کے وہ جس طرح کے لباس میں چاہیں اسکو رکھیں یہ مسٹر جیم حروف انکار کے نام سے جانے جاتے ہیں .
دوسرے دعوے دار اس مظلوم 'ج ' کے جیموں کا مجموعہ ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم نہ چاہتے تو اس اس کی جان نہیں چھوٹتی ہم نے اسکو وردی سے آزادی دلوائی اور آئینی لباس پہنایا اس پر صرف اس کا حق ہے جس کے پاس بندوق کی طاقت ہے .
اب دیکھیں ایک اور دعویدار کو اس 'ج ' کا کچھ حصہ اب مایوسی کا شکار ہوگیا ہے وہ اس بے چاری مظلوم نوزیدہ 'ج ' کا ہی دشمن بن گیا ہے پہلے بڑے 'ج ' کو غیرت دلائی کہ اس 'ج ' کو جسے تم اپنی لونڈی سمجھ تے ہو اس نے گیری لوگر سے مل کر ساری دنیا میں تماری ناک کٹوادی ہے . اس غیرت لابی کا شور سن کر بڑے 'ج ' کی بھی غیرت نے انگڑائی لی پھر جلدہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ اس غیرت کے چکر میں سب سے زیادہ نقصان انکا اپنا ہے یہاں سے مایوس یہ دوست نما دشمن ایک خود ساختہ 'ج 'کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش میں لگ گیا یہ خود ساختہ ' ج ' تو بیچاری ' ج ' کا کھلا دشمن ہے اور تمام برائیوں کا ذمہ دار اس کو ٹہراتا ہے اب اس نے بے چاری ' ج ' سے کسی بھی تعلق کو قابل سزا قرار دے دیا ہے اب دیکھیں بے چاری ' ج ' ان حالات میں کب تک اپنی رسوائی کرا تی ہے .
آپ سوچ رہے ہونگے کے یہ کون سے جن ہیں جن کے جال میں کمزور، بے چاری ، مظلوم ، زخم خوردہ اور رسوا ے زمانہ ، ج ، پھس گئی ہے چلیں آپ کا تعارف کر آئے دیتی ہوں .١. (ج ) جمہوریت ٢. ( ج ) جنرل ٣ . ( ج ) ججز ٤ . ( ج ) جرنلسٹ
٥. ( ج ) جہادی خودساختہ .

۹ نظر:

  1. زبردست مزا آگیا ان جیموں کے پیٹ میں ایک دو نقتے اور ڈال نے پڑیگے یا اسکا پیٹ صاف کرنا پڑے گا

    پاسخحذف
  2. آپ کی تحرير پڑھ کر لُطف آيا ۔ طبيعت جو حالات کے باعث مضمحل ہو رہی تھی کم از کم کچھ وقت کيلئے بشاش ہو گئی ۔ اس کيلئے شکريہ
    اور ہاں ۔ پڑھتے پڑھتے ذہن ميں آيا کہ جان اور جينا بھی تو ج سے شروع ہوتے ہے اسی لئے ج کے چکر ميں پھنس کر جان مضحمل رہتی ہے اور جينا مشکل نظر آتا ہے

    پاسخحذف
  3. اقبال شاہین صاحب یاصاحبہ اس 'ج'نے تو پاکستانیوں کے پیٹ خالی کردیے ہیں

    پاسخحذف
  4. افتخار اجمل بھوپال صاحب جنت اور جہنم میں بھی موجود ہیں مسٹر جیم

    پاسخحذف
  5. واہ جی واہ کیا ادھم مچائی ہوئی ہے ج نے، جیم سے تو بہت کچھ ہوتا ہے خاص کر جیالے بھی لیکن وہ ج سے جمہوریت میں شامل ہیں شاید۔
    :D

    پاسخحذف
  6. آپ کی تحریر پڑھ کر میرا خیال ہے کہ آپ کا تعلق پی۔پی۔پی سے ہے

    پاسخحذف
  7. آپ کی تحریر پڑھ کر میرا خیال ہے کہ آپ کا تعلق پی۔پی۔پی سے ہے
    مغل
    جن لوگوں نے جمھوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں پھانسیاں چڑھے کوڑے کھائے اور قید و بند کی صوبتیں برداشت کی وہ یقیناٌ عظیم ہیں عظیم رہیں گے
    اور وہ جنہوں نے جمہوریت کے قاتلوں کے مدد کی ۔
    کبھی آٹھویں ترمیم اور کبھی سترویں ترمیم کے ذریعے آمروں کی نمک حلالی کی وہ قابلِ مزمت ہیں اور رہیں گے ۔

    پاسخحذف

آپ کو حق حاصل ہے جس طرح کے چاہیں تبصرے کریں تو مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ جو تبصرے اخلاقیات کے معیار کے مطابق نہ ہوں انھیں میں رد کردوں۔