۲۳ مرداد، ۱۳۸۹

پاکستان کا میڈیا ؟


آج کل جس انداز کی صحافت ہو رہی ہے اس کے بارے بس اتنا کہںا کافی ہے کہ یہ اپنی مثال آپ ہے نہ کوئی اخلاخیات نہ کوئی صحافیانہ اصول ہر طرح کے ضابطوں سے آزاد جس کی چاہے پگڑی اچھال دیں جس کی چاہے عزت . مجھے نہ جانے اس شور میں کوّا کیوں یاد آرہا ہے، جب اس زمین پر پہلا قتل ہوا تو قاتل نے اپنا جرم چھپانے اور مقتول کو دفنانے کا فن کوّے سے ہی سیکھا تھا آج لگتا ہے چند صحافیوں نے یکطرفہ چیلانے کا فن بھی اسی کوے سے سیکھا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی دوسری عادتیں بھی ان میں کوّے کی سراہیت کر گئی ہیں جیسے کوّے کے بارے میں یہ بات مشھور ہے کے کوّا انتہائی مکار، چالاک اور سیانا ہونے کے باوجود گند بازی سے باز نہیں  آتا کیونکہ یہ اس کی فطرت میں شامل ہوتی  ہے کیونکہ مزاج کا تعلق فطرت سے ہوتا ہے اسلئے اس کو کوئی نہیں بدل سکتا . یہ صحافی اداکار کبھی کبھی ان فال نکالنے والے طوطوں کے روپ میں بھی نظر آتے ہیں اور مستقبل کا حال بتانا شروع کردیتے ہیں .اس گروہ نے سارے غبارے پھلاکر دیکھ لیئے اور پھونک پھونک کر اپنے جبڑوں میں درد کرلیا  مگر ان غباروں میں ہوا جب تک ہی رہی جب تک ان کو سچ کی سوئی نے نہ چھوا .بات ہورہی تھی کوّے کی تو اس کے بارے میں ایک مثل اور یاد آگئی وہ اسطرح ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھول گیا .کوّا جیسا شاطر اور مکار ںقال کسی اچھے سے بیوٹیشن سے مےکپ کروالے اپنی تمام تر بہترین اداکاری اور قسمت کی مہر بانی کے باوجود کوا کبھی ہنس نہیں بن سکتا .کیونکہ فطرت اور خصلت کوئی نہیں بدل سکتا .آج جو لوگ ہمیں صحافیانہ روپ میں نظر آرہے ہیں ان کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے .اس ان کے بارے میں سینئر صحافی بھی نالاں ہیں اس کا اظہار علی سلمان صاحب نے بڑے محتاط انداز میں کچھ یوں کیا ہے ۔
علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، لاہور

کہتےہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی مسابقت کی جنگ میں شاید سچ کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور صحافت کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے کا حال سنیے : اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی،خاتون وزیر کی گفتگو کےدوران سر پیچھے جھٹک جھٹک کر قہقہے لگا رہی ہیں اورخوشی کے اظہار کے لیے ایک زور دارتالی بجاتی ہیں۔خاتون وزیر چڑ کر دو چار ایسے الفاظ بولتی ہیں کہ ایم این اے صاحبہ کی ہنسی کو بریک لگ جاتی ہے وہ کہتی ہی کہ سوری جی میں تو اس قسم کی گندی باتیں نہیں کرسکتی جس طرح کی میڈیم کررہی ہیں۔
دوسرا واقعہ سنیے نیوز کاسٹر کہہ رہے ہیں' ابھی کچھ دیر پہلے ہم نے آپ کو بریکنگ نیوز دی تھی کہ معروف شاعر احمد فراز انتقال کرگئے ہیں اس خبر میں تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔'
حال ہی میں ایک شادی سکینڈل میں ملوث پاکستان کی سب سے بڑی فلمی ہیروئن کا ایک ایسا ویڈیو کلپ نشرہوا جس میں وہ صوفے پر براجمان رپورٹر پر جھکی کبھی اس کےدونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کرتو کبھی اس کے سینے پر ہتھیلی جماکراسے کچھ سمجھارہی ہیں۔اسی کلپ کے آغاز میں اداکارہ کی ویڈیو کیمرہ بند کرنے کی درخواست اور جوابا انہیں دی جانے والی جھوٹی یقین دہانی بھی موجود ہے۔

آپ کیمرہ اور مائیک اٹھائے کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں، آپ کیمرہ بند ہونے کا جھانسہ دیکرکسی کی بھی نجی زندگی کا تماشہ لگا سکتےہیں کیونکہ آپ ٹی وی کے رپورٹر، اینکر ہیں۔ میڈیا کے ایک سٹار ہیں، گفتار کے غازی ہیں۔صدرمملکت،چیف جسٹس آف پاکستان سے لیکر نتھوقصائی تک کوئی بھی آپ کی ' اعلی پرفارمنس' کا نشانہ بن سکتا ہے۔آپ کسی کے بھی ذاتی کردار پر خود بھی کیچڑ اچھال سکتے اور کسی کے ذریعے بھی یہ کام کروا سکتے ہیں۔
آپ نہ تو خود صحافتی اصول بناتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے کو بنانے دیتے ہیں۔ اگر حکومت اشارتا صحافتی اخلاقیات کے ضابطے بنانے کی بات بھی کرلے تو آزادی صحافت پر بندش لگانے کا الزام ایک خوفناک شور کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
آپ ہر فن مولا ہیں آپ کی کسی ایشو پرگرفت نہ بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ متحارب فریقوں کو آپس میں لڑا کر تماشہ لگا دینا آپ کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔
تماشہ بھی ایسا دلچسپ کہ جس نے پاکستان کو غالبا دنیا کا وہ واحد ملک بنا دیا ہے جہاں لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے نیوز ٹا ک  شو دیکھتے ہیں اور درجہ بندی سب سے بلند مقام ہونے کی وجہ سے انہیں پرائم ٹائم میں چلایا جاتا ہے۔
روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلی مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ’ایک طوفان بدتمزی برپا ہے سیاسی و ذاتی الزام تراشی ہورہی ہے لوگ مرغے لڑانے بیٹھ جاتے ہیں۔جو چاہے جس مرضی کوگالی دے اور اس کا نام آزادی صحافت رکھ دیا گیاہے۔”
انہوں نے کہا ' لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز میں ایڈیٹر(پروڈیوسر) نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔اینکر پرسن اور رپورٹر جو چاہتا ہے وہ لائیوکوریج کے نام پر براہ راست عوام تک پہنچ رہا ہے۔'
عارف نظامی کہتے ہیں 'جب سڑک پر چلتے لوگوں کو اینکر پرسن بنا دیا جائے اور ان کی مناسب تربیت کا بندوبست بھی نہ کیا جائےتو یقینامعیار نیچے آئے گا۔'
بہرحال ایسا بھی نہیں کہ تمام اینکر پرسن اور رپورٹر صحافت سے نابلد ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلے توپرنٹ میڈیا سے وابستہ تھے اور ان کی ' تخلیقات' ادارتی ڈیسک کی چھلنی سے گذر کر عوام تک پہنچتی تھیں لیکن وہ جب ٹی وی سکرین کی زینت بنے تو ان کی اڑان روکنے والا کوئی نہیں رہا۔ایسے بھی ہیں جو صحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن بس رنگ میں رنگے گئے ہیں۔
چند پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں صحافتی اقدار کا پاس کیا جاتا ہے اور اخلاقیات کی حد پار نہیں کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسے پروگرام مقبولیت کی درجہ بندی میں بہت نیچے چلے جاتے ہیں۔
بنیادی وجہ مسابقت ہے اگر کسی چینل پر کسی شخصیت کا تماشا لگ جائےدشنام طرازی ہویا کوئی ایسی نازیبا حرکت ہوجائے جو شہر میں زیربحث آجائے تو اس چینل کے دیکھنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور ناظرین کی زیادہ تعداد چینل کو درجہ بندی میں اوپر لے جائے گی۔
ریٹنگ بہتر ہونے سے اشہتارات کی تعداد اور نرخ بڑھتے ہیں چینل کے کرتا دھرتاؤں کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا ہے، مالک خوش ہوتا ہے اوراینکرپرسن یارپورٹر کی مارکیٹ ویلیو آسمان پرجالگتی ہے۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں ' اگر کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑاہوجائے تویہ تماشہ دیکھنے کے لیے ایک مجمع لگ جائے گا لیکن شہرت حاصل کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔' ان کا خیال ہے پاکستان میں میڈیا جو کچھ کررہا ہے اس کی ذمہ داری سماج اور سرکار پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے یورپ اور امریکہ جیسے ترقیاتی یافتہ معاشروں کی مثال دی جہاں ہتک عزت کا قانون ہے جو حرکت میں بھی آتا ہے،سول سوسائیٹی ہے جو اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
پاکستان میں آج تک ہتک عزت کا کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہوا جس میں میڈیا کو سزاسنائے جانے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوا ہو۔ پوری صحافتی تاریخ میں صرف نوائے وقت کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ رشید (مرحوم) کا ایک کیس ہواتھا جس میں اخبار کو کرڑوں روپوں میں جرمانہ بھی ہوا لیکن بعد میں سپریم کورٹ سے اخبار کے حق میں فیصلہ ہوگیا تھا۔
پاکستان میں ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کا رواج نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں عدلیہ صرف نام کی آزاد ہے۔'
وجوہات جو بھی ہوں پاکستان کی صحافتی اخلاقیات پر یہ تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا حال ایسے جاں بلب بکرے جیسا ہے جسے اناڑی قصائی کند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کررہا

۱۱ نظر:

  1. ہمارے ہاں عوام کو مرچ مصالحہ پسند ہے اور میڈیا ان کی پسند کا بھرپور خیال رکھ رہا ہے۔ اصل میں آپ نے جس صحافیانہ مزاج کی طرف اشارہ کیا، وہ صرف میڈیا کے ساتھ مخصوص نہیں۔ وہ ہم ہی میں سے کچھ لوگ ہیں اور دراصل مجموعی طور پر ہمارا مزاج بھی کچھ اسی طرح بن چکا ہے۔ ہاں، صحافی بننے کے لیے ان کی تربیت ضروری تھی لیکن ضروری تو اور بھی بہت کچھ ہے۔ ہمیں کیا!

    پاسخحذف
  2. محترمہ نغمہ سحر صاحبہ
    جس گھٹن کے ماحول میں ہم نے آنکھ کولی ہے وہ ایک جبر اور پابندی کا دور تھا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر جو آپنے آپ کو امیرالمومنین کہلاتا تھا مگر میڈیا پر اتنی پابندی کہ حدیث بھی اس کی مرضی کے بغیر کوئی نہیں چھاپ سکتا تھا ۔اب جب ان کو آزادی ملی ہے ٹھوڑا سا انجوائے کرنے ریں رفتہ رفتہ سیکھ جائیں گے

    پاسخحذف
  3. کچھ وقت لگے گا سب کچھ ٹھیک ہونے میں

    پاسخحذف
  4. میڈیا کی اس گلفشانیوں کا سب سے زیادہ ساتھ تو سیاستدان طبقہ ہی دیتا ہے۔ اب آپ اپنی دی ہوئی مثال ہی لے لیں موجودہ اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی اور خاتون وزیر کے درمیان جو مکالمہ ہوا، اس میں کسی 'سیاسی اداکار' نے تو حصہ نہیں لیا۔ہاں حکومتی وزیر کی تربیت کا پول ضرور کھل گیا۔ اور یہی چیز میڈیا عوام کے سامنے لانا چاہتا ہے۔

    پاسخحذف
  5. اسد جی، بصد معذرت عرض کروں گا کہ میڈیا کو ہمارے منتخب کردہ معزز حکومتی نمائندوں کا 'پول' کھولنے کی چنداں ضرورت نہیں، یہ تو ماشاء اللہ پہلے سے کھلا پڑا ہے.

    عوام کے سامنے میڈیا مصالحے دار خبریں ہی کیوں لاتا ہے؟ "ش" راتوں رات "ف" کے ساتھ فرار... واہ، معلومات اور نوجوان نسل کی راہنمائی کا ازحد شکریہ.
    افراتفری، سکینڈلز، دہشت گردی کی فل فلیج کوریج... یہ تو انکے مقاصد پورے کرنے والی بات ہوئی. جو کام دہشت گرد بیسیوں بم پھاڑ کر نہیں کر سکے یہ ہمارے (بقول نغمہ بہن) "گفتار کے غازیوں" نے چٹکی بجاتے میں کردیا...

    اگر آپ یہ کہیٰں کہ یہ تو ہمارے رہنماؤں اور حکمرانوں کو جگانے یا پریشرائز کرنے کے لئے ہے، تو اس معصومیت پہ قربان

    میں تو ان صحافتی بندروں کے ہاتھ سے آزادی کا استرا لینے کی سفارش کرتا ہوں..

    پاسخحذف
  6. جس قوم کے اخلاقیات کا دیوالیہ نکل چکا ہو۔
    ان کا میڈیا بھی قوم کے مزاج کے مطابق ہی ہوگا۔
    جس چیز کی مانگ ہوگی وہ ہی بکے گی۔
    کیا رونا کیا ہنسنا۔

    پاسخحذف
  7. اسلام علیکم
    یاسر بھیا نے خوب کہا۔
    آپکا بلاگ پہلی مرتبہ وزٹ کیا۔ ماشاءاللہ۔ خوب رنگیلا ہے۔ لیکن فانٹ سائیز کچھ بڑا ہے۔

    پاسخحذف
  8. راحت جی استرا تو ہر طبقہ نے ہی تھاما ہوا ہے۔ آپ کی بات درست کے میڈیا کا کردار کسی بگڑے ہوئے بچے جیسا ہے، لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آج اس کی بدولت ملک میں بڑی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ آزاد عدلیہ کی بحالی، آمریت کا خاتمہ، زلزلہ و سیلاب زدگان کی امداد اور آگاہی وہ اقدامات ہیں جنہیں میں لینڈ مارک تصور کرتا ہوں۔

    میں بزات خود میڈیا کی مادر پدر آزادی پر یقین نہیں رکھتا۔ غیر ضروری ٹاک شوز، فحش فلموں، اور ڈراموں سمیت پروپگنڈے پر بھی شدید ناراض ہوں۔ لیکن امید ہے کہ وقت کے ساتھ یہ بگڑا ہوا بچہ ایک ذمہ دار شعبہ بن جائے گا۔

    پاسخحذف

آپ کو حق حاصل ہے جس طرح کے چاہیں تبصرے کریں تو مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ جو تبصرے اخلاقیات کے معیار کے مطابق نہ ہوں انھیں میں رد کردوں۔