۱۴ شهریور، ۱۳۸۹

خراج تحسین

لاہور میں یوم شہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد کوئٹہ میں یوم القدس کی ریلی میں دیشت اور بربریت کا کھیل کھیلا گیا ایک مرتبہ پھر ہمارے شہروں کی سڑکوں پر خون بہایا گیا  بیگناہوں کے چیتھڑے اڑائے گئے ایسا کام کرنے والوں کو حیوان کہو وحشی کہو یا درندہ مگر یہ تمام نام ان کی سفاکی کے مقابلے میں بے معنی لگتے ہیں کچھ مہربانوں کو یہ بربریت ایک معمہ دکھائی دیتا ہے انہیں بہت دور کا تو نظر آتا ہے مگر وہ چہرے دکھائی نہیں دیتے جو دور کے اشارے پر یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور ان کے اردگرد ہی موجود ہیں یہ مہربان مختلف حیلے بہانوں سے ان کی پردہ داری کرتے رہتے ہیں .
دوسری طرف ان واقعات کے ردعمل میں جو رویہ اپنایا گیا وہ انتہائی جہالت کا مظاہرہ ہے لاہور اور کوئٹہ میں ان سانحات کے بعد جو عام شہریوں کی املاک کو تباہ و برباد کیا گیا عینی شاہدوں کے مطابق کوئٹہ کی ریلی میں شامل لوگوں نے جان بوجھ کر سیلاب زدگان کے امدادی کیمپ میں بیٹھے ہوئے کارکنوں اور مسجد سے نکلتے ہوئے نمازیوں کو نشانہ بنایا .
کوئٹہ کے سی سی پی او غلام شبیر شیخ کے مطابق ریلی کے شرکاہ نے انتظامیہ سے بلکل تعاون نہیں کیا ریلی کا راستہ جو پہلے سے ریلی کے منتظمین سے طے کیا گیا تھا اس کی خلاف ورزی کی منع کرنے کے باوجود ضد اور ہٹ دھرمی سے میزان چوک پر گئے جہاں سیکوٹی ںا ہونے کے برابر تھی یہاں پر دیشت گردوں کو اپنا ہدف آسان لگا اور وه اپنی کروائی میں کامیاب ہوئے اور سی سی پی او نے یہ بھی کہا کہ زیادہ جانی نقصان ریلی کے شرکاہ کی فائرنگ سے ہوا اور اسکی ذمے داری ریلی کے منتظمین پر عائد ہوتی ہے .اور کہا کہ ریلی میں شریک لوگوں نے ہی نجی املاک کو نقصان پونچھا یا .اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا .
اس بیان کے بعد سی سی پی او کے خلاف ایک طوفان برپا ہوگیا چند ہی گھنٹوں بعد غلام شبیر شیخ کو عہدے سے ہٹادیا گیا .
کچھ عرصہ پہلے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں جلوس میں شرکت کیلئے جانے والی منی بس سے ایک خود کش موٹر سائیکل نے اپنے آپ کو ٹکراکر اڑالیا کچھ ہی دیر میں درجنوں گاڑیوں ،نجی املاک کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا سب سے المناک بات یہ ہوئی کہ ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کو آگ لگانے میں اتنی پھرتی دکھائی کہ ریسٹورنٹ میں کام کرنے والوں کو باہر آنے کا موقع ہی نہیں مل سکا اور وه اس آگ میں زندہ جل گئے .یہ سفاکانہ عمل چند جوشیلے نوجوانوں کا ردعمل نہیں بلکہ منظم مربوط طریقے سے کیا گیا ان کے بڑے قائدین نہ صرف پردہ ڈالتے رہے ہیں بلکہ طرفدار بن کر ان کو بچا تے رہے .
کراچی کے شہریوں کے دل اور دماغ میں وه منظر ابھی تازہ ہیں جب عاشورہ ١٠ محرم کے جلوس میں دھماکے کے بعد چند لمحوں میں ہزاروں دوکانوں کو جلاکر خاکستر کر دیا گیا اربوں روپوں کی مالیت تباہ کردی گئی زندگی بھر کی پونجی برباد کر دی گئی .کراچی کے لوگوں نے دیکھا پہچانا نشاندہی کی مگر ان کو جھٹلایا گیا ابہام پیدا کیا اور کہا گیا کہ یہ انہی کی حرکت ہے جنہوں نے جلوس میں دھماکہ کیا ہے مگر اس موقع پر ناظم کراچی نے جرت کا مظاہرا کرتے ہوے سی سی کیمرے سے حاصل ویڈیو میڈیا اور پولیس کو دے دی جس نے تمام مجرموں کو بے نقاب کردیا ان ویڈیو کو دیکھ کر آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کو تباہ کرنے والے کون تھے.واضح رہے کہ ان ویڈیو کی مدد سے پولیس نے کافی گرفتاریاں کی اور ان ویڈیو کو بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا مگر حکومت سندھ میں شامل دونوں پارٹیاں اندرونی اور بیرونی پریشر کو برداشت نہیں کر سکیں اور مقمات ختم کردیے گئے یا مجرموں کو ضمانت پر چھوڑ دیے .
آخر ہم کب تک سچ کو چھوپاتے رہے گے کب تک سیاسی مصلحت کی وجہ سے مجرموں کی پردہ داری کرتے رہیں گے ہم کچھ نہیں کر سکتے مگر اتنا تو ہمارا ایمان ہوگا کہ ظالم کو ظالم کہیں قاتل کو قاتل کہیں دیشت گرد کو دیشت گرد کہیں .
خراجتحسین پیش کر تی ہوں سی سی پی او کوئٹہ غلام شبیر شیخ اور کراچی سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کو جنہونے بغیر کسی سیاسی اور انتظامی مصلحت کے مجرموں کو بے نقاب کیا 

۸ نظر:

  1. ہہمارے وزیر داخلہ رحعان ملک صاحب ک یہ کہنا کہ مزھبی پروگراموں کو محدود رکھا جائے بلکل سہی بات کی ہے

    پاسخحذف
  2. یہ ایک دوسرے کا صفایا کرکے صرف اپنے ہم خیال اور ہم نظریات لوگوں کو جینے کا حق دینا چاھتے ہیں۔
    یہ چا ھتے ہیں جو ان جیسے نہیں وہ ان کے احکامات بجا لائیں۔ان کی ہر ہاں میں ہاں ملائیں نہیں تو جینا چھوڑ دیں۔جو عام جلاو گھیراو کر تے ہیں وہ تو بے چارے کم تعلیم یافتہ کم فہم ہوتے ہیں۔
    جو انہیں استعمال کرتے ہیں وہ اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔
    ہمیں تو مستقبل میں کچھ بہترہوتا دیکھائی نہیں دیتا۔

    پاسخحذف
  3. شہریوں کی حفاظت حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اگر شہریوں کی جان و مال کی حفاظت پر مامور قانون نافظ کرنے والے ادارے اپنا کام درست انداز میں نہیں کرتے تو انہیں کراج تحسین پیش کرنے کے بجائے سخت سزا دینی چاہیے۔

    یہ کوئی ایک دو واقعات کی بات نہیں۔ ہمارے یہاں ایک طویل عرصہ سے خودکش دھماکہ جاری ہیں۔ لیکن ہماری حکومت نہ صرف ان دھماکوں کو روکنے میں ناکام ہے، بلکہ بڑے ہستیوں کو چھوڑ کر عوام کے قاتلوں کو کسی نے بے نقاب نہیں کیا۔ کراچی کے یوم عاشور پر ہوئے بم دھماکہ کے بعد حکومت کو یہ تعین کرنے میں کئی دن لگ گئے کہ دھماکہ خودکش تھا یا پلانٹڈ بم۔ اس کے بعد سے آج تک اس واقعہ کے ذمہ داران کو سزا ملی اور نہ آئیندہ امید ہے۔

    پاسخحذف
  4. اردو بلاگستان میں خوش آًمدید!
    ایک نیا اضافہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔
    آپ کے بلاگ کی تھیم کچھ ایسی ہے کہ صفحہ بہت آہستہ سے لوڈ ہوتا ہے۔ اور سکرول کرنے میں بھی سستی روی ہوتی ہے۔ آپ کا فونٹ بھی نستعلیق یا نسخ میں نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے قارئین کو بلاگ پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ اگر آپ ان باتوں پر نظر ثانی کریں تو قارئیں کو بہت سہولت ہوگی۔ ان تیکنیکی باتوں کی درستگی سے اگر آپ لاعلم ہیں تو مجھے یا دوسرے افراد کو ای میل کرکے مدد کا کہہ سکتی ہیں۔ شکریہ

    پاسخحذف
  5. جناب ابرار صاحب ................................
    ان حالات میں ان جلوسوں سے اجتناب کرنا چائیے کیونکہ انسانی زندگیاں بچانا ضروری ہیں .
    جناب یاسر خامخواہ جاپانی صاحب ..................
    ہماری قوم میں برداشت ختم ہوگئی ہے اکثر تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی برداشت کا فقدان ہے .
    جناب اسد صاحب ،.................................
    اس وقت پاکستانی قوم حالت جنگ میں ہے دشمن مختلف طریقوں سے حملہ آور ہے چاہے پلانیٹڈ ہو یا خود کش .جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناہلی ہے وه سب پر عیاں ہے مگر اس معاملے میں سب سے زیادہ انہی پر حملے ہوئے ہیں لیکن یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ حملوں کے جواب میں عام شہریوں کی املاک کو جلایا جاۓ .
    اس وقت جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے اتحاد کی ضرورت ہے اپنے ارگرد ایسے عناصر پر نظر رکھے جو مشکوک ہوں .
    جناب عثمان صاحب ،...............................
    انشااللہ جیسے ہی فرصت ملی اس طرف توجہ دونگی آپ کی رہنمائی کا شکریہ .

    پاسخحذف
  6. آپ کے خراج تحسین کے کیا کہنے۔۔
    لہو اگر کسی خودکش حملے میں بہے، ٹارگٹ کلنگ میں بہے، ڈرون حملوں میں بہے یا معصوم اور مجرم کی تخسیس کے بغیر فوجی آپریشن کے نتیجے میں بہے سب کی حقیقت ایک ہی ہے۔

    جو چپ رہے گی زبان خنجر
    لہو پکارے گا آستیں کا

    پاسخحذف
  7. جناب وقارآعظم صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آپ کے تبصرے کا جواب آپکے تبصرے کے آخر میں موجود ہے بس اتنا عرض کرنے کی جسارت کرتی ہوں کہ۔۔۔۔۔۔
    کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
    تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

    پاسخحذف
  8. محترمہ نغمہ سحر صاحبہ
    ہماری قوم میں انفرادی اور اجتماعئی دونوں حالتوں میں برداشت ختم ہوگئی ہے جس کا نظارہ ہم اکثر ریکھتے رہتے ہیں

    پاسخحذف

آپ کو حق حاصل ہے جس طرح کے چاہیں تبصرے کریں تو مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ جو تبصرے اخلاقیات کے معیار کے مطابق نہ ہوں انھیں میں رد کردوں۔