۲۱ شهریور، ۱۳۸۹

دیشت ہی کافی ہے

جس کو دیکھو لٹھ لئے دوڑا چلا آرہا ہے آخر دنیا ہم سے جلتی ہے ہر طرف سے ہم پر ہی یلغار ہورہی ہے ہم پر بے ایمانی ،بددیانتی،بد اخلاقی اور بے شرمی کے لیبل لگائے جارہے ہیں کوئی انسانیت کا درس دے رہا ہے تو کوئی اخلاق سیکھا رہا ہے چاروں طرف سے طن‍ز کے تیر برسائے جارہے ہیں ہمیں رسوا کیا جارہا ہے ۔ ہم بھی ضدی ہیں ہمارا ارادہ پختہ ہے دنیا چاہتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بنے سنوارنے میں لگا لیں وہ ہمیں مزل سے دور کرنا چاہتی ہے۔ ہمیں دیکھنے کی فرصت کہاں کہ ہم نیچے سر جھکاکر اپنے گریباں دیکھیں ہماری نظریں تو وائٹ ہاوس پر ہیں وہاں اپنا جھنڈا لگانا ہے ساری دنیا پر جکومت کرنی ہے جب ساری دنیا میں ہمارا سکہ چلے گا ہمارے ہاتھ میں بندوق ہوگی تو دنیا کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہوگا ہمارا ‎‎‎‎مذھب اختیار کرنے کے سوا ۔ کوئی ان احمقوں کو سمجھائے جو ہمیں انسانیت ، انصاف ، صلہ رحمی ، کردار ،  سچائی  ، ایمانداری ، احترام ، صبر ، برداشت ، عفو و درگزر اور ہمدردی کا سبق پڑھارہے ہیں یہ جو کڑوڑوں اربوں کی تعداد میں  مسلمان ہیں وہ تلوار کے زور پر ہی مسلمان ہوئے ہیں اور جہاں تلوار نہیں پونہچی وہاں تلوار کی دیشت نے کام کر دیکھایا اور اب تک ان کی نسلوں میں خوف باقی ہے اور اسی وجہ سے یہ سب ابھی تک مسلمان ہیں آج ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے تو کیا ہوا ہمیں اس کی نہ ضرورت ہے نہ پرواہ ہماری دیشت ہی کافی ہے جس سے آج ساری دنیا کانپ رہی ہے وہ دن اب آنیوالا ہے جب ساری دنیا ہماری دیشت اور خوف سےڈر کر اپنے ہتیار اور ٹیکنالوجی ہمارے حوالے کر دیگی کیونکہ ہم سب سے افضل ہیں اور ہماری دیشت ہی کافی ہے۔







هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر

آپ کو حق حاصل ہے جس طرح کے چاہیں تبصرے کریں تو مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ جو تبصرے اخلاقیات کے معیار کے مطابق نہ ہوں انھیں میں رد کردوں۔