۲۴ شهریور، ۱۳۸۹

علاج

ہم ایک انتہائی زہریلے اور منافقانہ معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں موجودہ انتہا پسندانہ سوچ اور اسکی وجہ سے رونما ہونے واقعیات کوئی غیر متوقع نہیں ہیں ہم نے ایک لمبے عرصے اس فصل کی آبکاری کی زمین ہماری تھی بیج نادان دوست دیتا رہا اور داناں دشمن بہترین کھاد (یوریا) مہیا کرتا رہا۔
گزرے دنوں کو بھولنا ہوگا نئی راہوں کا انتخاب کرنا ہوگا ہمیں اس فساد کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا جس دہشت گردی کا ہمیں سامنا ہے یہ کوئی علاقائی مسئلہ نہیں اور نہ ہی اسکا کسی خاص مکتب فکر سے تعلق ہے بلکہ یہ ہمہ گیر مسئلہ ہے ہر گرہ دوسری گرہ کے ساتھ الجھی ہوئی ہے۔ یہ وائرس اس فوجی جنرل کے دماغی خلل کی وجہ سے وبائی شکل اختیار کر گیا جس کو اپنے اقتدار کے علاوہ کچھ دیکھائی نہیں دیتا تھا جس جس کے دماغ پر اس وائرس کا اثر ہوا اس نے جنرل کو اپنا امیرالمومنین بنا لیا اور جنرل کے ماتحت خفیہ اداروں کے کرتا دھرتا لوگوں نے ایسا گمراہ مذھبی گروہ پیدا کیا جو فساد فی الرض کو جہاد فی سبیل اللہ سمجھتا ہے ۔
آئیں ہم خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں داخل ہوں یہ وقت منافقانہ جوش خطابت یا شعلہ بیانی کا نہیں  ہمارے پاس وقت کم ہے فوری علاج کی ضرورت ہے ۔

۲۱ شهریور، ۱۳۸۹

دیشت ہی کافی ہے

جس کو دیکھو لٹھ لئے دوڑا چلا آرہا ہے آخر دنیا ہم سے جلتی ہے ہر طرف سے ہم پر ہی یلغار ہورہی ہے ہم پر بے ایمانی ،بددیانتی،بد اخلاقی اور بے شرمی کے لیبل لگائے جارہے ہیں کوئی انسانیت کا درس دے رہا ہے تو کوئی اخلاق سیکھا رہا ہے چاروں طرف سے طن‍ز کے تیر برسائے جارہے ہیں ہمیں رسوا کیا جارہا ہے ۔ ہم بھی ضدی ہیں ہمارا ارادہ پختہ ہے دنیا چاہتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بنے سنوارنے میں لگا لیں وہ ہمیں مزل سے دور کرنا چاہتی ہے۔ ہمیں دیکھنے کی فرصت کہاں کہ ہم نیچے سر جھکاکر اپنے گریباں دیکھیں ہماری نظریں تو وائٹ ہاوس پر ہیں وہاں اپنا جھنڈا لگانا ہے ساری دنیا پر جکومت کرنی ہے جب ساری دنیا میں ہمارا سکہ چلے گا ہمارے ہاتھ میں بندوق ہوگی تو دنیا کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہوگا ہمارا ‎‎‎‎مذھب اختیار کرنے کے سوا ۔ کوئی ان احمقوں کو سمجھائے جو ہمیں انسانیت ، انصاف ، صلہ رحمی ، کردار ،  سچائی  ، ایمانداری ، احترام ، صبر ، برداشت ، عفو و درگزر اور ہمدردی کا سبق پڑھارہے ہیں یہ جو کڑوڑوں اربوں کی تعداد میں  مسلمان ہیں وہ تلوار کے زور پر ہی مسلمان ہوئے ہیں اور جہاں تلوار نہیں پونہچی وہاں تلوار کی دیشت نے کام کر دیکھایا اور اب تک ان کی نسلوں میں خوف باقی ہے اور اسی وجہ سے یہ سب ابھی تک مسلمان ہیں آج ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے تو کیا ہوا ہمیں اس کی نہ ضرورت ہے نہ پرواہ ہماری دیشت ہی کافی ہے جس سے آج ساری دنیا کانپ رہی ہے وہ دن اب آنیوالا ہے جب ساری دنیا ہماری دیشت اور خوف سےڈر کر اپنے ہتیار اور ٹیکنالوجی ہمارے حوالے کر دیگی کیونکہ ہم سب سے افضل ہیں اور ہماری دیشت ہی کافی ہے۔







۱۴ شهریور، ۱۳۸۹

خراج تحسین

لاہور میں یوم شہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد کوئٹہ میں یوم القدس کی ریلی میں دیشت اور بربریت کا کھیل کھیلا گیا ایک مرتبہ پھر ہمارے شہروں کی سڑکوں پر خون بہایا گیا  بیگناہوں کے چیتھڑے اڑائے گئے ایسا کام کرنے والوں کو حیوان کہو وحشی کہو یا درندہ مگر یہ تمام نام ان کی سفاکی کے مقابلے میں بے معنی لگتے ہیں کچھ مہربانوں کو یہ بربریت ایک معمہ دکھائی دیتا ہے انہیں بہت دور کا تو نظر آتا ہے مگر وہ چہرے دکھائی نہیں دیتے جو دور کے اشارے پر یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور ان کے اردگرد ہی موجود ہیں یہ مہربان مختلف حیلے بہانوں سے ان کی پردہ داری کرتے رہتے ہیں .
دوسری طرف ان واقعات کے ردعمل میں جو رویہ اپنایا گیا وہ انتہائی جہالت کا مظاہرہ ہے لاہور اور کوئٹہ میں ان سانحات کے بعد جو عام شہریوں کی املاک کو تباہ و برباد کیا گیا عینی شاہدوں کے مطابق کوئٹہ کی ریلی میں شامل لوگوں نے جان بوجھ کر سیلاب زدگان کے امدادی کیمپ میں بیٹھے ہوئے کارکنوں اور مسجد سے نکلتے ہوئے نمازیوں کو نشانہ بنایا .
کوئٹہ کے سی سی پی او غلام شبیر شیخ کے مطابق ریلی کے شرکاہ نے انتظامیہ سے بلکل تعاون نہیں کیا ریلی کا راستہ جو پہلے سے ریلی کے منتظمین سے طے کیا گیا تھا اس کی خلاف ورزی کی منع کرنے کے باوجود ضد اور ہٹ دھرمی سے میزان چوک پر گئے جہاں سیکوٹی ںا ہونے کے برابر تھی یہاں پر دیشت گردوں کو اپنا ہدف آسان لگا اور وه اپنی کروائی میں کامیاب ہوئے اور سی سی پی او نے یہ بھی کہا کہ زیادہ جانی نقصان ریلی کے شرکاہ کی فائرنگ سے ہوا اور اسکی ذمے داری ریلی کے منتظمین پر عائد ہوتی ہے .اور کہا کہ ریلی میں شریک لوگوں نے ہی نجی املاک کو نقصان پونچھا یا .اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا .
اس بیان کے بعد سی سی پی او کے خلاف ایک طوفان برپا ہوگیا چند ہی گھنٹوں بعد غلام شبیر شیخ کو عہدے سے ہٹادیا گیا .
کچھ عرصہ پہلے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں جلوس میں شرکت کیلئے جانے والی منی بس سے ایک خود کش موٹر سائیکل نے اپنے آپ کو ٹکراکر اڑالیا کچھ ہی دیر میں درجنوں گاڑیوں ،نجی املاک کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا سب سے المناک بات یہ ہوئی کہ ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کو آگ لگانے میں اتنی پھرتی دکھائی کہ ریسٹورنٹ میں کام کرنے والوں کو باہر آنے کا موقع ہی نہیں مل سکا اور وه اس آگ میں زندہ جل گئے .یہ سفاکانہ عمل چند جوشیلے نوجوانوں کا ردعمل نہیں بلکہ منظم مربوط طریقے سے کیا گیا ان کے بڑے قائدین نہ صرف پردہ ڈالتے رہے ہیں بلکہ طرفدار بن کر ان کو بچا تے رہے .
کراچی کے شہریوں کے دل اور دماغ میں وه منظر ابھی تازہ ہیں جب عاشورہ ١٠ محرم کے جلوس میں دھماکے کے بعد چند لمحوں میں ہزاروں دوکانوں کو جلاکر خاکستر کر دیا گیا اربوں روپوں کی مالیت تباہ کردی گئی زندگی بھر کی پونجی برباد کر دی گئی .کراچی کے لوگوں نے دیکھا پہچانا نشاندہی کی مگر ان کو جھٹلایا گیا ابہام پیدا کیا اور کہا گیا کہ یہ انہی کی حرکت ہے جنہوں نے جلوس میں دھماکہ کیا ہے مگر اس موقع پر ناظم کراچی نے جرت کا مظاہرا کرتے ہوے سی سی کیمرے سے حاصل ویڈیو میڈیا اور پولیس کو دے دی جس نے تمام مجرموں کو بے نقاب کردیا ان ویڈیو کو دیکھ کر آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کو تباہ کرنے والے کون تھے.واضح رہے کہ ان ویڈیو کی مدد سے پولیس نے کافی گرفتاریاں کی اور ان ویڈیو کو بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا مگر حکومت سندھ میں شامل دونوں پارٹیاں اندرونی اور بیرونی پریشر کو برداشت نہیں کر سکیں اور مقمات ختم کردیے گئے یا مجرموں کو ضمانت پر چھوڑ دیے .
آخر ہم کب تک سچ کو چھوپاتے رہے گے کب تک سیاسی مصلحت کی وجہ سے مجرموں کی پردہ داری کرتے رہیں گے ہم کچھ نہیں کر سکتے مگر اتنا تو ہمارا ایمان ہوگا کہ ظالم کو ظالم کہیں قاتل کو قاتل کہیں دیشت گرد کو دیشت گرد کہیں .
خراجتحسین پیش کر تی ہوں سی سی پی او کوئٹہ غلام شبیر شیخ اور کراچی سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کو جنہونے بغیر کسی سیاسی اور انتظامی مصلحت کے مجرموں کو بے نقاب کیا 

۲۳ مرداد، ۱۳۸۹

پاکستان کا میڈیا ؟


آج کل جس انداز کی صحافت ہو رہی ہے اس کے بارے بس اتنا کہںا کافی ہے کہ یہ اپنی مثال آپ ہے نہ کوئی اخلاخیات نہ کوئی صحافیانہ اصول ہر طرح کے ضابطوں سے آزاد جس کی چاہے پگڑی اچھال دیں جس کی چاہے عزت . مجھے نہ جانے اس شور میں کوّا کیوں یاد آرہا ہے، جب اس زمین پر پہلا قتل ہوا تو قاتل نے اپنا جرم چھپانے اور مقتول کو دفنانے کا فن کوّے سے ہی سیکھا تھا آج لگتا ہے چند صحافیوں نے یکطرفہ چیلانے کا فن بھی اسی کوے سے سیکھا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی دوسری عادتیں بھی ان میں کوّے کی سراہیت کر گئی ہیں جیسے کوّے کے بارے میں یہ بات مشھور ہے کے کوّا انتہائی مکار، چالاک اور سیانا ہونے کے باوجود گند بازی سے باز نہیں  آتا کیونکہ یہ اس کی فطرت میں شامل ہوتی  ہے کیونکہ مزاج کا تعلق فطرت سے ہوتا ہے اسلئے اس کو کوئی نہیں بدل سکتا . یہ صحافی اداکار کبھی کبھی ان فال نکالنے والے طوطوں کے روپ میں بھی نظر آتے ہیں اور مستقبل کا حال بتانا شروع کردیتے ہیں .اس گروہ نے سارے غبارے پھلاکر دیکھ لیئے اور پھونک پھونک کر اپنے جبڑوں میں درد کرلیا  مگر ان غباروں میں ہوا جب تک ہی رہی جب تک ان کو سچ کی سوئی نے نہ چھوا .بات ہورہی تھی کوّے کی تو اس کے بارے میں ایک مثل اور یاد آگئی وہ اسطرح ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھول گیا .کوّا جیسا شاطر اور مکار ںقال کسی اچھے سے بیوٹیشن سے مےکپ کروالے اپنی تمام تر بہترین اداکاری اور قسمت کی مہر بانی کے باوجود کوا کبھی ہنس نہیں بن سکتا .کیونکہ فطرت اور خصلت کوئی نہیں بدل سکتا .آج جو لوگ ہمیں صحافیانہ روپ میں نظر آرہے ہیں ان کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے .اس ان کے بارے میں سینئر صحافی بھی نالاں ہیں اس کا اظہار علی سلمان صاحب نے بڑے محتاط انداز میں کچھ یوں کیا ہے ۔
علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، لاہور

کہتےہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی مسابقت کی جنگ میں شاید سچ کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور صحافت کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے کا حال سنیے : اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی،خاتون وزیر کی گفتگو کےدوران سر پیچھے جھٹک جھٹک کر قہقہے لگا رہی ہیں اورخوشی کے اظہار کے لیے ایک زور دارتالی بجاتی ہیں۔خاتون وزیر چڑ کر دو چار ایسے الفاظ بولتی ہیں کہ ایم این اے صاحبہ کی ہنسی کو بریک لگ جاتی ہے وہ کہتی ہی کہ سوری جی میں تو اس قسم کی گندی باتیں نہیں کرسکتی جس طرح کی میڈیم کررہی ہیں۔
دوسرا واقعہ سنیے نیوز کاسٹر کہہ رہے ہیں' ابھی کچھ دیر پہلے ہم نے آپ کو بریکنگ نیوز دی تھی کہ معروف شاعر احمد فراز انتقال کرگئے ہیں اس خبر میں تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔'
حال ہی میں ایک شادی سکینڈل میں ملوث پاکستان کی سب سے بڑی فلمی ہیروئن کا ایک ایسا ویڈیو کلپ نشرہوا جس میں وہ صوفے پر براجمان رپورٹر پر جھکی کبھی اس کےدونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کرتو کبھی اس کے سینے پر ہتھیلی جماکراسے کچھ سمجھارہی ہیں۔اسی کلپ کے آغاز میں اداکارہ کی ویڈیو کیمرہ بند کرنے کی درخواست اور جوابا انہیں دی جانے والی جھوٹی یقین دہانی بھی موجود ہے۔

آپ کیمرہ اور مائیک اٹھائے کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں، آپ کیمرہ بند ہونے کا جھانسہ دیکرکسی کی بھی نجی زندگی کا تماشہ لگا سکتےہیں کیونکہ آپ ٹی وی کے رپورٹر، اینکر ہیں۔ میڈیا کے ایک سٹار ہیں، گفتار کے غازی ہیں۔صدرمملکت،چیف جسٹس آف پاکستان سے لیکر نتھوقصائی تک کوئی بھی آپ کی ' اعلی پرفارمنس' کا نشانہ بن سکتا ہے۔آپ کسی کے بھی ذاتی کردار پر خود بھی کیچڑ اچھال سکتے اور کسی کے ذریعے بھی یہ کام کروا سکتے ہیں۔
آپ نہ تو خود صحافتی اصول بناتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے کو بنانے دیتے ہیں۔ اگر حکومت اشارتا صحافتی اخلاقیات کے ضابطے بنانے کی بات بھی کرلے تو آزادی صحافت پر بندش لگانے کا الزام ایک خوفناک شور کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
آپ ہر فن مولا ہیں آپ کی کسی ایشو پرگرفت نہ بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ متحارب فریقوں کو آپس میں لڑا کر تماشہ لگا دینا آپ کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔
تماشہ بھی ایسا دلچسپ کہ جس نے پاکستان کو غالبا دنیا کا وہ واحد ملک بنا دیا ہے جہاں لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے نیوز ٹا ک  شو دیکھتے ہیں اور درجہ بندی سب سے بلند مقام ہونے کی وجہ سے انہیں پرائم ٹائم میں چلایا جاتا ہے۔
روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلی مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ’ایک طوفان بدتمزی برپا ہے سیاسی و ذاتی الزام تراشی ہورہی ہے لوگ مرغے لڑانے بیٹھ جاتے ہیں۔جو چاہے جس مرضی کوگالی دے اور اس کا نام آزادی صحافت رکھ دیا گیاہے۔”
انہوں نے کہا ' لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز میں ایڈیٹر(پروڈیوسر) نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔اینکر پرسن اور رپورٹر جو چاہتا ہے وہ لائیوکوریج کے نام پر براہ راست عوام تک پہنچ رہا ہے۔'
عارف نظامی کہتے ہیں 'جب سڑک پر چلتے لوگوں کو اینکر پرسن بنا دیا جائے اور ان کی مناسب تربیت کا بندوبست بھی نہ کیا جائےتو یقینامعیار نیچے آئے گا۔'
بہرحال ایسا بھی نہیں کہ تمام اینکر پرسن اور رپورٹر صحافت سے نابلد ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلے توپرنٹ میڈیا سے وابستہ تھے اور ان کی ' تخلیقات' ادارتی ڈیسک کی چھلنی سے گذر کر عوام تک پہنچتی تھیں لیکن وہ جب ٹی وی سکرین کی زینت بنے تو ان کی اڑان روکنے والا کوئی نہیں رہا۔ایسے بھی ہیں جو صحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن بس رنگ میں رنگے گئے ہیں۔
چند پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں صحافتی اقدار کا پاس کیا جاتا ہے اور اخلاقیات کی حد پار نہیں کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسے پروگرام مقبولیت کی درجہ بندی میں بہت نیچے چلے جاتے ہیں۔
بنیادی وجہ مسابقت ہے اگر کسی چینل پر کسی شخصیت کا تماشا لگ جائےدشنام طرازی ہویا کوئی ایسی نازیبا حرکت ہوجائے جو شہر میں زیربحث آجائے تو اس چینل کے دیکھنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور ناظرین کی زیادہ تعداد چینل کو درجہ بندی میں اوپر لے جائے گی۔
ریٹنگ بہتر ہونے سے اشہتارات کی تعداد اور نرخ بڑھتے ہیں چینل کے کرتا دھرتاؤں کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا ہے، مالک خوش ہوتا ہے اوراینکرپرسن یارپورٹر کی مارکیٹ ویلیو آسمان پرجالگتی ہے۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں ' اگر کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑاہوجائے تویہ تماشہ دیکھنے کے لیے ایک مجمع لگ جائے گا لیکن شہرت حاصل کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔' ان کا خیال ہے پاکستان میں میڈیا جو کچھ کررہا ہے اس کی ذمہ داری سماج اور سرکار پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے یورپ اور امریکہ جیسے ترقیاتی یافتہ معاشروں کی مثال دی جہاں ہتک عزت کا قانون ہے جو حرکت میں بھی آتا ہے،سول سوسائیٹی ہے جو اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
پاکستان میں آج تک ہتک عزت کا کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہوا جس میں میڈیا کو سزاسنائے جانے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوا ہو۔ پوری صحافتی تاریخ میں صرف نوائے وقت کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ رشید (مرحوم) کا ایک کیس ہواتھا جس میں اخبار کو کرڑوں روپوں میں جرمانہ بھی ہوا لیکن بعد میں سپریم کورٹ سے اخبار کے حق میں فیصلہ ہوگیا تھا۔
پاکستان میں ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کا رواج نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں عدلیہ صرف نام کی آزاد ہے۔'
وجوہات جو بھی ہوں پاکستان کی صحافتی اخلاقیات پر یہ تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا حال ایسے جاں بلب بکرے جیسا ہے جسے اناڑی قصائی کند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کررہا

۱۵ مرداد، ۱۳۸۹

برادری سسٹم

شازی سے فون پر شاپنگ کا پروگرام سیٹ ہوا اور میں اس کے آفس جا پہونچی شازی قومی بچت میں کام کرتی ہے شازی کے پاس ایک کلائنٹ بیٹھی ہوئی تھی شازی نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں ان خاتون کلائنٹ کے برابر بیٹھ گئی شازی اپنے کلائنٹ کے کاغذات کی جانچ پڑتال میں لگ گئی اور میں آفس کا جائزہ لینے لگی غیر ارادی طور جب میری نظر اپنے برابر بیٹھی ان محترمہ پر پڑی میں چونک گئی میں نے ان کے چہرے پر کرب کے ساتھ ایک چمک بھی محسوس کی میں نے ان محترمہ سے بات کرنا چاہی مگر مخاطب ںا ہوسکی تھوڑی دیر میں شازی نے ایک لفافہ ان خاتوں کے ہاتھ میں دیتے ہوے کہا یہ لیجئے نائلہ بیگم آپ کی بیٹی کی پالیسی ،جب نائلہ بیگم شازی کے ہاتھوں سے لفافہ لے رہیں تھی تو ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے نائلہ بیگم نے جلدی سے رومال سے اپنے آنسو صاف کئے میں نے اور شازی نے ایک دوسرے کو دیکھا شازی نے بات اگے بڑھاتے ہوئے کہا آپ کی ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی ہاں یہ ضرور ہے کہ ١٨ سال بعد آپ کو ایک بڑی رقم ملے گی جو اس کے شادی کے وقت کام آئے گی لیکن آپ نے اس کی تعلیم پر بھی توجہ دینی ہے تاکہ اس کو اچھا رشتہ ملے اور یہ ایک اچھی زندگی گزار سکے ابھی تک نائلہ بیگم جو صرف ہاں ،جی، اور شکریہ کے علاوہ کچھ ںا بولی تھیں اکدم ابل پڑی تعلیم ولیم سے لڑکی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آتی بس پیسہ ہے تو اچھے رشتے آتے ہیں اور ان کے انتخاب کرنے کی چوائس ہوتی ہے ورنہ اگر پیسہ نہیں ہے تو جیسا بھی رشتہ آئے شادی کرنا پڑتی ہے کوئی چوائس نہیں ہوتی .اب میرے سے چپ نہیں رہا گیا میں نے کہا آپ تو تعلیم یافتہ لگتی ہیں ایسی باتیں تو کوئی .......نائلہ بیگم تھوڑی رکیں پھر کہا ہاں میں نے گریجویشن کیا ہے مگر اس کا کیا فائدہ میری جن سے شادی ہوئی ہے وہ میرے سے عمر میں ١٩ سال بڑے اور پہلے سے شادی شدہ تھے تعلیم نہ ہونے کے برابر.ایسے شخص سے کیوں کی شادی تمارے والدین نے اور آپ نے انکار کیوں نہیں کیا .میں نے اپنی دانست میں بڑا روشن خیلانہ سوال کیا .اس کے علاوہ کوئی چوائس نہیں تھی ہمارے پاس .نائلہ بیگم نے مختصر جواب دیا .کیا مطلب آپ کی اچھی شکل و صورت ہے پڑی لکھی بھی ہیں آپ کے لئے تو رشتوں کی لائن لگ جاتی .میرے سوال کوکوئی اہمیت دیے بغیر نائلہ بیگم بولیں ہماری برادری میں لڑکے کے دام لگتے ہیں جو اچھی قیمت دے سکتے ہیں وہ والدین اپنی بیٹیوں کیلئے رشتے خرید لیتے ہیں اور جو نہیں خرید سکتے ان کی بیٹیوں کا حال میرے جیسا ہوتا ہے نائلہ بیگم اور کچھ بولنا چارہیں تھی مگر میں نے دخل اندازی کرتے ہووے کہا کہ ضروری تو نہیں کہ برادری میں ہی شادی ہو برادری کے باہر بھی شادی ہوسکتی ہے اور اب تو یہ برادری سسٹم ختم ہوگیا ہے .نائلہ بیگم نے ایک لمبی سانس لی اور کہا کاش ایسا ہوجائے میرا نہیں تو میری بچی کا ہی نصیب اچھا ہوجائے دراصل ہماری برادری نے لڑکی کی غیر برادری میں شادی کو غیرت کا سمبل بنایا ہوا ہے اگر کسی نے بغاوت کی تو ساری برادری اس کی جانی دشمن ہوجاتی ہے بھائی ،چچا ،مامو ہر کوئی خون کا پیاسا بن جاتا ہے .کیا کبھی کسی لڑکی نے برادری سے باہر شادی کی میں نے اور کریدنا چاہا .ہاں بول کر کچھ رکیں اور بولیں میں ایسی پانچ لڑکیوں کو جانتی ہوں جنہونے بغاوت کرتے ہوے برادری سے باہر شادی کیں تین کا تو پتہ ہی نہیں وہ کہاں ہیں جب سے غائب ہوئی ہیں کوئی خبر ہی نہیں اور دو اللہ کو پیاری ہوگئیں .نائلہ بیگم کے چہرے پر خوف نمایاں ہورہا تھا .الله کو پیاری ہوگیں میں نے نائلہ بیگم کا جملہ دوہرایا. ہاں دو الله کو پیاری ہوگئیں نائلہ بیگم تفصیل بتانے لگیں جب پتہ لگا کہ وہ کسی علاقے میں کرائے کے مکان میں رہ رہی ہے تو براردری میں ہلچل مچ گئی پھر ایک دن خبر ائی کے ڈاکوں نے مزاحمت کے دوران گولیاں مار کر میاں بیوی کو ہلاک کردیا .دوسری لڑکی کا انجام بھی کچھ مختلف ںا تھا وہ بھی اپنے فلیٹ میں اپنے شوہر اور دو سالہ بچے کے ساتھ مردہ حالت میں ملی .اف میرے خدا یا میرے منہ سے اکدم نکلا ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ نائلہ بیگم کہہ رہی تھیں دراصل آپ ہماری برادری کو نہیں جانتی اس میں سب برا نہیں ہے ہماری برادری میں سب کچھ خراب نہیں ہے بڑے پڑھے لکھے بھی ہیں اور مختلف سیاسی جماتوں میں اہم عہدوں پر بھی ہماری برادری کا بہت اثر و رسوخ ہے الیکشن میں جس امیدوار کی سپورٹ کرتی ہے اس کی کامیابی یقینی ہوتی ہے بس لڑکی کی برادری سے باہر شادی پر سب مردوں کی ایک ہی سوچ ہے ایسے میں لڑکی کی مدد کون کرے گا شازی اپنے کام سے فارغ ہوگی اور اس نے چلنے کا کہا اور نائلہ بیگم نے شازی کا شکریہ ادا کیا اور ہم مارکیٹ کی جانب چل دیے اور چلتے چلتے میں سوچ رہی تھی آج کے اس انٹرنیٹ کے دور میں بھی وہ ہی پرانا ١٠٠ سالہ برادری سسٹم اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑے ہوے ہے .

۲۴ تیر، ۱۳۸۹

( ج )


آج کل پنجاب اسمبلی کی اس قرارداد کا بڑا شور ہے جس میں ارکان اسمبلی نے میڈیا کے ان عناصر کی مذمت کی جو تمام اخلاقیات کو بالاطاق رکھ کر اور صحافیانہ اصولوں کو چھوڑ کر ایسی خبریں ، ٹاک شو اور کلپ چینل پر چلا رہے ہیں جن سے کسی کی عزت محفوظ نہیں جب چاہیں جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں اور جب عوامی نمائدے اپنے فطری ردعمل ،اپنے جمہوری حق اور اپنی ناپسنددیدگی کا اظہار کرنے کیلئے اپنے جائز فورم کو استعمال کریں تو ایسےایسے فتوے جاری ہونے شروع ہو گۓ کے جیسے عوام کے منتخب نمائندوں سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہو گیا جو ناقابل معافی ہے.
آج کے منتخب نمائندے جنھیں عوام نے اپنی محرومیوں اور ںاانصافیوں کے خاتمے کیلئے لڑنے اور آواز اٹھانے کیلئے ایوانوں میں بھیجا تھا وہ آج کس طرح غیر منتخب لوگوں سے اپنی رسوائی کروارہے ہیں اورانہیں اف کرنے کی بھی اجازت نہیں یہ ہے آج کی جمہوریت جہاں جمہوری حکومت اور منتخب نمائندے کمزور اور غیر منتخب طاقتور .
جہاں تک میں سمجھی ہوں کہ ایک بیچاری ' ج ' کئی جیموں میں پھس گئی ہے ہر کوئی اسے اپنی مرضی کے لباس میں اپنی دلہن بنانا چارہا ہے ایک دعوے دار تو وہ 'ج ' ہیں جنہونے اس بیچاری 'ج ' کی آبروریزی کرنے والے 'ج ' کو اسکے ناجائز اقدام کونہ صرف جائز قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کے وہ جس طرح کے لباس میں چاہیں اسکو رکھیں یہ مسٹر جیم حروف انکار کے نام سے جانے جاتے ہیں .
دوسرے دعوے دار اس مظلوم 'ج ' کے جیموں کا مجموعہ ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم نہ چاہتے تو اس اس کی جان نہیں چھوٹتی ہم نے اسکو وردی سے آزادی دلوائی اور آئینی لباس پہنایا اس پر صرف اس کا حق ہے جس کے پاس بندوق کی طاقت ہے .
اب دیکھیں ایک اور دعویدار کو اس 'ج ' کا کچھ حصہ اب مایوسی کا شکار ہوگیا ہے وہ اس بے چاری مظلوم نوزیدہ 'ج ' کا ہی دشمن بن گیا ہے پہلے بڑے 'ج ' کو غیرت دلائی کہ اس 'ج ' کو جسے تم اپنی لونڈی سمجھ تے ہو اس نے گیری لوگر سے مل کر ساری دنیا میں تماری ناک کٹوادی ہے . اس غیرت لابی کا شور سن کر بڑے 'ج ' کی بھی غیرت نے انگڑائی لی پھر جلدہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ اس غیرت کے چکر میں سب سے زیادہ نقصان انکا اپنا ہے یہاں سے مایوس یہ دوست نما دشمن ایک خود ساختہ 'ج 'کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش میں لگ گیا یہ خود ساختہ ' ج ' تو بیچاری ' ج ' کا کھلا دشمن ہے اور تمام برائیوں کا ذمہ دار اس کو ٹہراتا ہے اب اس نے بے چاری ' ج ' سے کسی بھی تعلق کو قابل سزا قرار دے دیا ہے اب دیکھیں بے چاری ' ج ' ان حالات میں کب تک اپنی رسوائی کرا تی ہے .
آپ سوچ رہے ہونگے کے یہ کون سے جن ہیں جن کے جال میں کمزور، بے چاری ، مظلوم ، زخم خوردہ اور رسوا ے زمانہ ، ج ، پھس گئی ہے چلیں آپ کا تعارف کر آئے دیتی ہوں .١. (ج ) جمہوریت ٢. ( ج ) جنرل ٣ . ( ج ) ججز ٤ . ( ج ) جرنلسٹ
٥. ( ج ) جہادی خودساختہ .

۲۱ تیر، ۱۳۸۹

اٹھارويں ترميم پارليمنٹ اور عد ليہ

 آئين کي جو حالت ڈکٹيٹروں نے بنا دی تھی اور آئين کو چوں چوں کا مربہ بنا ديا تھا اس کو ٹھيک کرنے ميں تقريباً آٹھ ماہ سے زائد عرصہ لگا جس ميں 101 تراميم پر شق وار غور و خوص کے بعد اٹھارويں ترميم کی شکل ميں پارليمنٹ ميں پيش کيا گيا جس کو پارليمنٹ نے اتفاقِ رائے سے منظور کر ليا اور اب صدر ممليکت کے دستخط کے بعد آئين پاکستان کا حصہ ہے اب وہ عناصر جوايسا آئين چاہتے ہيں جس ميں جب چاہيں اپنی مرضی کا مطلب نکاليں آئين بھی رہے اور ڈکٹيٹر بھی رہے اور ان کے مفادات بھی پورے ہوں طرح طرح کی بولياں بول رہے ہيں اور ايسی بدگمانياں پيدا کر رہے ہيں جيسے آئين سے کوئی مقدس اور متعبرک باتيں نکال کر نعجس اور ناپاک باتيں شامل کردی ہيں پہلے ميڈيا پر شور مچايا يہاں پر جب مدلل اور بھر پور جواب ملا تو ہزارہ کا رخ کيا وہاں بھی تيزی سے انکے غبارے ميں سے ہوا نکل گئی اب ان عناصر کا پڑاؤ عدليہ ميں ہے يہاں پر يہ اپنا پورا زور لگائيں گے اب عدليہ ان کا سہارہ بنتی ہے يا نہيں اگر عدليہ نے ان عناصر کو سہارہ ديا اور پارليمنٹ کے بنائے ہوئے آئين ميں کوئی تبديلی کی يا کسی شق کو منسوخ کيا تو يہ ايسا سوراخ ہوگا جو ڈکٹيٹروں کو آنے کا راستہ دے گا جو آذاد عدليہ کے کيئے بھی باعثِ نقصان ہو گا جيسا کہ ماضی ميں ہوتا رہا ہے ڈکٹيٹر نے پريشر ڈال کر عدليہ کے ذريعے آئين ميں تبديلی کروانے کا اختيار حاصل کيا کئی شقوں کو منسوخ کروانے کی سند لی اگر عدليہ نے آئين ميں تبديلی ، منسوخی يا کسی لفظ کے معنی اور مفہوم بدلنے کا اختيار اپنے ہاتھ ميں ليا تو يہ ڈکٹيٹر کے بچنے کا ذريعہ بنے گا۔پھر ڈکٹيٹر آئے گا پی سی او نافذ ہوگا جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائيں گے جو نہيں اٹھائے گا وہ گھر جائے گا ڈکٹيٹر سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے باوجود اگر کبھی انکار کيا تو گريباں اور بالوں سے پکڑ کر گاڑی ميں ڈال ديا جائے گا پارليمنٹ ہی آئين کی خالق ہے اور يہ اسی کا اختيار ہے کہ آئين بنائے ترميم کرے يا کسی شق کو معطل کرے کسی دوسرے کو يہ حق نہيں کے وہ پارليمنٹ کا اختيار استعمال کرے اگر کوئی ايسا کرے گا تو يہ خلاف آئين اور تصادم کا راستہ ہوگا جس کا نقصان سب کو اٹھانا پڑے گا اس وقت جمہوريت نوزائدہ ہے اسکو طاقت اور حوسلہ بڑھانا سب کی زمے داری ہے ۔ اپنی مفاہمت ، مصالحت کی پاليسی کی وجہ سے سياسی جماعتيں پارليمنٹ کے لئے نہيں لڑيں گيں تو ان کی وہ ہی حالت ہوگی جو ماضی ميں ہوئی تھيں ۔جلاوطنی يہ اب نہيں ہونا چاہيے کہ آئين بھی ڈکٹيٹر بھی ايک ساتھ ۔ پارليمنٹ نہيں تو آئين نہيں ۔آئين ہے تو ڈکٹيٹر نہيں ۔آئين ہے تو سسٹم ہے سسٹم مظبوط ہے تو استحکام ہے استحکام ہے تو ترقی ہے ترقی ہوگی تو مسائل حل ہونگے مسائل حل ہونگے تو عام آدمی کا فائدہ ہوگا اور جب عام آدمی کا فائدہ ہوگا تو ان عناصر کا نقصان ہوگا جو صرف اور صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہيں اور جن کے مفادات عدم استحکام اور ڈکٹيٹروں سے وابستہ ہيں۔